۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا گلزار جعفری

حوزہ/ ماہ صیام افطاریوں پر ٹوٹ پڑنے اور سحری کے لیے پوری پوری رات بیدار رہنے کا نام نہیں ہے بیکاری کی شب بیداری کے لیے رمضان المبارک نہیں ہے بلکہ عام زندگی گزارتے ہوئے احساس کو جگانے اور اس احساس کو عملی شکل دینے کا نام ہے اس لیے ہم نے اس ماہ کو ماہ احساس سے تعبیر کیا ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | یوں تو احساس ایک لمحاتی خیال کا نام ہے جو تصورات کی کوکھ میں جنم لیتا ہے جس کا پیش خیمہ جذبات کی راہوں سے ہوتا ہوا گزرتا ہے جہاں مشاہدات بھی پس منظر کی حیثیت رکھتے ہیں احساس ایک ایسا خیال واقعی اور انقلابی ہے جس کو لفظوں کا پیراہن زیب تن نہیں کرایا جا سکتا یہ بس قلب و نظر، ذہانت و فراست چہ بسا علاقأئیت و وراثت کے اعتبار سے برتری اور کمتری کی جانب تقسیم ہوتا ہے جو محل گفتگو نہیں ہے ہم مطلقا احساس کی بات کریں تو،آیات ربانی نے جس بشری فطری تقاضوں کو دامن گیر کیا ہے وہ اس طرح ہے۔

کتب علیکم الصیام کما کتب علی اللذین من قبلکم لعلکم تتقون

کا کھلا ہوا مفہوم یہ ہے کہ تم پر روزے لکھ دیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے والوں پر لکھے جا چکے ہیں مطلب یہ کوئی نیا نویلا اور انوکھا حکم تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ تم سے ما قبل امتوں پر صیام یعنی روزے یعنی امساک مطلب ان چیزوں سے روکا گیا ہے جو روزے کو باطل کر دیتی ہیں اور یہ اس لیے ہیکہ شاید تم متقی بن جاؤ دن بھر بھوکا پیاسا رہنا، محرمات سے بچنا ، خواہشات کی مخالفت ، تمناؤں کا خون کرنا قربت الہی اور ریاضت الہی کے لیے اور ہر اس کام سے احتراز و اجتناب جس سے روزہ باطل ہوتا ہے اس کے بعد بھی متقی یقینی طور پر نہیں کہلا سکتے شاید کہ تم متقی بن جاؤ یا متقی ہو جاؤ عجیب لمحہ فکریہ ہے خالق فطرت ہماری طبیعتوں سے واقف اور اگاہ ہے وہ جانتا ہے کہ ہم ذایقہ زبان ، لذت نظر، قلب ناتواں کی امنگوں پر کنٹرول تو کر سکتے ہیں مگر اس احساس پر عمل نہیں کر سکتے گویا روزہ لازم عمل نہیں بلکہ متعدی عمل ہے یعنی اپنی ذات میں محدود ہونے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ اس احساس تشنگی و گر سنگی کے بعد معاشرے کی بھوک اور پیاس کو مٹانا اپنے بھوکے اور پیاسے ہونے یا رہنے کے احساس کو اپنی عملی زندگی میں ڈھالنا یعنی میں جب بھوک کی شدت کا احساس کرتا ہوں تو قلب و نظر کیا کہتے ہیں تمنائیں ارزوئیں خواہشیں ارادے کیا کہتے ہیں۔

اگرحکم خدا نہ ہوتا تو جہاں سے ملتا جو ملتا اپنے پیٹ کی اگ بجھانے کے لیے کر گزرتا بس یہ احساس اگر پیدا ہو جائے تو سماج سے بھوک ختم کرنے کا ارادہ اپنی عملی شکل میں ڈھل جائے تو یہ شاید متقی ہو جانا کا لفظ ہمارے لیے یقینا متقی ہو جاؤ گے میں تبدیل ہو جائے گا میرے عشق الہی کا زاویہ نظر یہ ہیکہ رب رحیم و کریم کو بندے کا بھوکا پیاسا رہنا محبوب نہیں ہے بلکہ اس کی تربیت میں سماج کا درد پنہان کرنا ضروری تھا مگر افسوس کہ شاید یہ عبادت بھی یا تو ہمارے سماج میں عادت ہو گئی یا رسم و رواج کے بندھن میں بندھ گئی ورنہ نہر فرات پر قبضہ کیوں ہوتا صفین میں گھاٹ پر غاصبانہ حملہ کرنے والے بظاہر کافر تو نہیں سمجھے جا رہے تھے روزہ رکھنے والے نام نہاد ہی سہی مسلمان تو تھے تین دن تک کربلا میں جن لوگوں نے ال محمد ص پر پانی بند کیا تھا وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے اور پڑھانے والے عابد شب زندہ دار صائم النہار ، قائم اللیل تھے پھر یہ غیر انسانی غیراسلامی حرکت کیوں اس لیے کہ انہوں نے روزہ احساس کی بیداری کے لیے نہیں بلکہ سماج کی رسم عبادی نبھانے کے لیے رکھا تھا اس لیے وہ احساس اس وقت بھی بیدار نہیں ہوا جب چھوٹے چھوٹے بچوں کی صدائے العطش العطش کانوں سے ٹکرا رہی تھی اور تکبیروں کی آواز بلند کرنے والوں کو چند ماہ قبل کے ماہ صیام کی یاد دلا رہی تھی جبکہ عشق کا وقار کہتا ہیکہ ساقی کوثر کی اولادوں کو طلب آب نہیں کرنا تھا اتمام حجت کرنا تھی اوراس دور بے حیاء کی تصویر حقیقت دیکھانا تھی تاکہ نسل سفیان کے چہرے سے نقاب انسانی ہٹا کر درندگی کی نسلوں کا پتہ بتایا جا سکے جس آج بھی اسلامی مملکتوں کے عہدوں پر براجمان ہو کر سب کچھ فراموشی کے نہاں خانوں میں سجا چکے ہیں چھ مہینے کے بچے کے طلب آب پر آنکھوں سے وقتی طور پر ندامت کے انسووں جو نکل رہے تھے وہ اسی روزے کی تشنگی کی یاد تو دلا رہے تھے مگر اس احساس نے عملی شکل اختیار نہیں کی تھی اور خواہشات نفس اور اتباع ہوا و ہوس کے مراحل اگے اگے رہے اور نتیجے کے طور پر احساس تشنگی کو تیر سہ شعبہ سے شہید کر دیا گیا اور روزہ داروں کو ایک طفل شیر خوار کی پیاس کے احساس نے تبدیل نہیں کیا شقاوت قلبی ، دولت کی طلب، حکومت کی تڑپ، شہرت کی آرزو نے سب کچھ چھین لیا کربلای سماج آج بھی انسان کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہے اگر اج بھی روزہ میں گرسنگی اور تشنگی کو برداشت کرنے کے بعد ہم پیاسے کو پانی اور بھوکے کو کھانا کھلا سکیں تو ان روزوں اور نمازوں کا فائدہ ہے۔

ماہ صیام چوراہوں کے آباد کرنے، شہر میں ادھم مچانے، لوگوں کو اذیت دینے، طرح طرح کی لذیذ اور مرغن غذائیں تناول کرنے کا نام نہیں ہے ماہ صیام لذتوں کے حصول کا نہیں لذتوں کے تیاگنے کا نام ہے ماہ صیام افطاریوں پر ٹوٹ پڑنے اور سحری کے لیے پوری پوری رات بیدار رہنے کا نام نہیں ہے بیکاری کی شب بیداری کے لیے رمضان المبارک نہیں ہے بلکہ عام زندگی گزارتے ہوئے احساس کو جگانے اور اس احساس کو عملی شکل دینے کا نام ہے اس لیے ہم نے اس ماہ کو ماہ احساس سے تعبیر کیا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .